01 دسمبر 1971

مشین کے ذریعہ دماغ کا معائنہ

0 comments
زلیخا سلیمان  کراچی۔میری بیٹی روبینہ ایک معذور بچی ہے ممکن ہے آپ کے علاج سے تندرست ہوجاۓ۔ میں اس کے مکمل حالات آپ کو لکھتی ہوں۔ آپ کو خدا رسول کا واسطہ آپ میری بچی کے لئے علاج تجویز کر دیں۔ ہم لوگ کراچی اور بمبئی کے تمام بڑے بڑے انگریزی، یونانی اور ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کا علاج کراچکے ہیں لیکن حالت سدھرنے کی بجاۓ روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے۔ اب صرف خدا کا آسرا رہ گیا ہے۔
بچی آپریشن کے ذریعہ سے پیدا ہوئی۔ چونکہ بے حد کمزور تھی اس لئے آکسیجن میں رکھا گیا۔ لیکن رفتہ رفتہ تندرست ہو گئی بچی کی پیدائش سے قبل میں ہائی بلڈ پریشر کی مریض تھی اور دو مرتبہ تشنجی  دورے بھی پڑے تھے۔ میں اب بھی اس مرض میں مبتلا ہوں۔
بچی کے چار ماہ میں دانت نکلنا شروع ہوۓ چھ ماہ کی عمر میں بیٹھنے لگی اور گیارہ ماہ کی عمر میں چلنے پھرنے لگی اور چند الفاظ بھی ادا کرنے لگی۔ ڈیڑھ سال کی ہوئی تو خسرہ نکلی۔ کچھ عرصہ بعد تیز بخار آیا اور اتر گیا لیکن زکام کی حالت باقی رہی۔ چار سال کی عمر میں ڈاکٹر نے آپریشن کر کے ٹانسلز  نکال دئیے۔ لیکن اس عرصہ میں یہ بات سامنے آئی کہ بچی پوری طرح بولنے سے معذور ہے اور چلنے میں اس کی ٹانگیں کانپتی ہیں اور روز بروز لاغرو کمزور ہوتی جا رہی ہے 1948ءمیں اس کو بمبئی لے گئی اور وہاں بچوں کے ماہر ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ اور اس کے علاوہ نامور ڈاکٹروں سے بھی علاج کروایا۔ لیکن بے سود ۔ ہر معالج کی تشخیص جدا تھی۔ کسی نے ذہنی طور پر پسماندہ بتایا تو کسی نے جسمانی کمزوری اور کسی نے رگوں کے نظام میں تعطل بتایا۔ ایک ذہنی ڈاکٹر نے باقاعدہ مشین کے ذریعہ دماغ کے نظام کا مکمل معائنہ کر کے بتایا کہ دماغ کی رگوں کا فعل ناقص ہے اور یہ مرض بڑھتے بڑھتے تمام دماغ کو متا ثر کر دیگا اور بچی پلنگ سے لگ جاۓ گی یہ بات حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اور 1969ء میں یہ حالت ہو گئی کہ بچی صرف کولہوں کے بل گھسٹتی تھی۔ اور پھر لڑھک جاتی تھی اور حواس خمسہ تو گویا بالکل ہی ختم ہوگئے تھے۔ نہ بھوک کا اظہار کر سکتی تھی نہ پیاس کا، پیشاب ، پخانے کا بھی ہوش نہیں تھا۔ یہاں تک کہ شکلیں پہچاننا بھی بھول گئی نوبت یہاں تک پہنچی کہ بچی کو کرسی پر بٹھا کر باندھ دیتے تھے۔ لیکن گردن پھر بھی نہیں ٹھہرتی تھی اور کرسی سمیت لڑھک جاتی تھی ۔ رونا شروع کرتی تو دن رات روتی اور بلا مبالغہ ایک ہفتہ تک روتی ہی رہتی ۔ تعویذ اور گنڈے بھی کراۓ اور اس کی مجبوری کو دیکھ کر اس کی موت کی دعائیں بھی مانگیں۔ اس بچی کے منہ سے عرصہ تک بد بو دار رال بھی بہتی رہتی۔ کبھی کبھی دورہ پڑتا ہے جس میں اس کا جسم ہلنا شروع ہوجاتا ہے اور پھر وہ ایک طرف گر جاتی ہے ۔ اس طرح گر نے سے بے شمار چوٹیں بھی آئیں لیکن اس کو کسی قسم کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ بچی ایک زندہ لاش ہے ۔ اس کے پیر سوکھ کر ڈنڈوں کی مانند ہوگئے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جسمانی ترقی میں کسی قسم کا خلل نہیں پڑا ۔
یعنی دودھ کے دانت ٹوٹ کر نئے آۓ ،بال اور ناخن بھی بڑھتے ہیں، قد بھی عمر کے مطابق ہے البتہ  منہ نہیں کھلتا اور پیر کے پنجے اندر کی طرف مڑ گئے ہیں اور ہاتھ کی ہڈیوں میں کجی آ گئی ہے۔ بطور غذا کے شوربہ میں روٹی چور کر زبردستی کھلاتی ہوں لیکن بچی کو حلق سے اتارنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ اب یا تو اس کی بینائی کمزور ہو رہی ہے یا زائل ہو رہی ہے۔
جواب: آدھ پاؤ عمدہ قسم کی سیپ خرید کر گر م پانی سے خوب صاف کر لیں۔ ہاون دستہ میں موٹا موٹا کچل کر گاڑھے مضبوط اور صاف کپڑے میں باندھ کر پوٹلی بنا لیں۔ مٹی کی ہانڈی میں اتنا پانی لیں بچی ایک دن میں استعمال کرتی ہو پوٹلی کو اس میں ڈال کر پانی کو ایک جوش دیں۔ اس علاج پر تین ماہ عمل کریں اور پھر حالات سے مطلع کریں۔ ہانڈی کا پانی روزانہ بدلیں۔ ایک پوٹلی صرف پندرہ دن کام دے گی۔ اس کے بعد سیپ اور کپڑا بدلنا ضروری ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔