16 مئی 1977

مرنے کے بعد کیا ہوگا؟

0 comments
یہ ایک ایسی بات ھے کہ یہاں آکر جو آباد ہو گیاپھر کبھی چشمِ پُر نم نے کسی کو واپس آتے نہیں دیکھا۔عالمِ رنگ و بو کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہواکہ یہاں آکر بسنے والے کسی شخص نے نقل مکانی کر کے یہ بتایا ہو کہ اُس پر کیا گزری ہے اور وہ کِس حال میں زندگی گُزارتا رہا ہے۔
آرامِ استراحت اور غم و آلام کے اِس ماحول سے ذرا دیر کے لیے الگ ہو کر دیکھیٔے۔

قبرستان:
یہاں نئی، پُرانی، کتبوں اور ٹا ئلوں سے مزیّن درخت کے پتوں میں سا یہ فگن،سورج کی تپش اور تمازت میں جھلسی ہوئی، شکستہ اور کھلی ہو   ئی  قبریں ہیں۔ ماحول میں اداسی گھلی ہوئی ہے۔  فِضا خاموش اور ساکت ہے ہر طرف سناٹا ہے،ہُو کا ایک عالم ہےاِس عالمِ آب و گل میں امیر، غریب، بادشاہ، غلام، ظالم، رحمدل، بوڑھے، جوان اور بچے سب موجود ہیں۔ مٹی کے اِن ڈھیروں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا وجود دنیا کے لۓ رحمت تھا اور ایسے بھی جِن کے نام سے دنیا لرزہ براندام ہو جاتی تھی ایسے لوگ بھی مٹی کی آغوش میں سوۓ ہوۓ ہیں جِن کی زندگی کا مقصد اپنی اور صرف اپنی ذات ہوتا ہے دولت کے پُجاری اور ایثار پیشہ سب ہی آباد ہیں۔
 دیکھۓ!  
قبرستان کے ایک ویران گوشے میں نقش و نگار سے مزین یہ کتنی خوبصورت قبر ہے۔
 آئیے!   
اِس قبر کے اندر دیکھیں کیا ہو رہا ہے؟ 
دوزانو بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیجیۓ۔منہ بند کر کےناک کے دونوں سوراخوں (نتھنوں) سے گہرائی میں سانس لے کر سینہ میں روک لیجیۓ جب تک آسانی کے ساتھ برداشت کر سکیں سانس کو سینے میں جمع رکھیۓ پھر منہ کھول کر آہستہ آہستہ اور بہت آہستہ سانس باہر نکال دیں۔چند بار کے اِس عمل سے دماغ کی وہ صلاحیت جو ٹا ئم اسپییس( Time Space)  کی حدوں میں قید نہیں ہے متحرک ہو جاتی ہے۔ قانون یہ ہے کہ جب ہم اپنے اندر سانس لیتے ہیں تو ہم صعودی کیفیت میں سفر کرتے ہیں اور جب سانس باہر نکالتے ہیں تو نزولی کیفیت  ( آب وگِل کے تاثرات)  ہمارے اُوپر مسلط ہو جاتی ہیں۔
  بس ٹھیک ہے۔ غیب بینی کی صلاحیت حرکت میں آگئی ہے۔ یکسوئی اور توجہ کے ساتھ روح کی آنکھ اندھیرا اجالے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ 
منظر کِس قدر حسین ہو گیا ہے۔   ہر چہارسو مرکری روشنیاں چودھویں کے چاند کو شرما رہی ہیں۔
  اُس طرف دیکھۓ!  یہ دروازہ ہے۔
چلئیے اِس دروازہ سے اندر داخل ہوتے ہیں یہاں تو پورا شہر آباد ہے۔
 اِس عظیم اور لاکھوں سال پُرانے شہر میں فلک بوس عمارتیں، چھوٹے بڑے مکانات، پھونس سے بنی ہوئی جھونپڑیاں،  د ُکانیں، بازار، میدان، ندی، نالے بھی ہیں۔ یہ شہر پتھر کے زمانے کے لوگوں کا مسکن ہے اور ترقی یافتہ دور کے لوگ بھی اِس میں مکین ہیں۔

چور بازاری:
بازار میں ایک صاحب دکان لگاۓ بیٹھے ہیں۔ دکان طرح طرح کے ڈبوں اور شیشے کے جار سے سجی ہوئی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ اِن ڈبوں اور شیشے کے جاروں میں سامان کچھ نہیں ہے۔
کتنا اُداس اور پریشان ہے یہ شخص؟
 پوچھا تمھارا کیا حال ہے؟
 کہا!  میں اِس بات سے غمگین ہوں کہ مجھے یہاں بیٹھے ہوۓ پانچ سو سال گزر گۓ ہیں اِس طویل عرصہ میں میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں آیا۔
  میں دنیا میں ایک سرمایہ دار تھا منافع خوری اور چور بازاری میرا کاروبار تھا۔

تین ہزار سال:
برابر کی دکان میں ایک اور آدمی بھی بیٹھا ہوا ہے بوڑھا آدمی ہے۔ بال اُلجھے ہوۓ اور بالکل خشک۔ چہرہ پر وحشت ہے، گھبراہٹ کا عالم ہے ۔  سامنے کاغذ ہے اور حساب کے رجسٹر پڑے ہیں ۔یہ ایک کشادہ اور قدرے صاف دکان ہے۔ یہ صاحب کاغذ پر رقموں کی میزان  دے رہے ہیں۔ رقموں کا جوڑ کرتے ہیں تو اعداد بلند آواز سے گنتے ہیں۔
  کہتے ہیں دو اور تین سات، سات اور دو دس۔  دس اور پانچ بیس۔  میزان کر کے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں تا کہ اِطمینان ہو جاۓ۔  اب اِس طرح میزان کرتے ہیں تین اور چار سات، سات اور تین بارہ۔  مطلب یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں میزان غلط ہو تی ہے۔  جب یہ دیکھتے ہیں کہ میزان صحیح نہیں ہے تو وحشت زدہ ہو کر بال نوچتے ہیں خود کو کوستے ہیں بڑبڑاتے ہیں اور دیوار سے سر ٹکراتے ہیں اور پھر میزان دینے میں منہمک ہو جاتے ہیں۔
بڑے میاں کی خدمت میں عرض کیا  جناب یہ  کیا کر رہے ہیں۔
 کہا میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیر پھیر کرتا تھا بد معاملگی میرا شعار تھا۔
 "سو جِس نے کی ذرہ بھر بھلا  ئی وہ دیکھ لے گا اور جِس نے کی زرہ بھر بُرائی وہ دیکھ لے گا۔"(قرآن)

اللہ کے ساتھ مَکر:
علمأسو سے تعلُق رکھنے والے اِن صاحب سے ملۓ؟  داڑھی اِتنی لمبی کہ جیسے جھڑ بیر کی جھاڑی۔  اِتنی بڑی کہ اس میں پیر چُھپے ہوۓ ہیں۔  چلتے ہیں تو داڑھی اِکٹھا کر کے اپنی کمر کے اِردگرد لپیٹ لیتے ہیں اِس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلتے وقت داڑھی کُھل جاتی ہے اور اُس میں اُلجھ کر زمین پر اوندھے منہ گِر جاتے ہیں۔  اُٹھتے ہیں تو داڑھی میں اُلجھ کر پھر  منہ کے بَل زمین  پر گِرتے ہیں۔ سوال کرنے پر بتایا۔
 دُنیا میں لوگوں کو دھوکہ دینے کے لۓ میں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اِس کے ساتھ ساتھ داڑھی رکھنا میرے لۓ بہت بڑی نیکی بھی تھی۔ میں اِس نیکی کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیکدل  لوگوں سے مطلب ہاری کر لیتا تھا۔
  "لوگ اللہ کے ساتھ مکر کرتے ہیں اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔" (قرآن)

فرِشتے:
وہ دیکھۓ، دور بستی سے باہر ایک صاحب زور زور سے آواز لگا رہے ہیں۔  اے لوگو‘ آؤ! میں تمھیں اللہ کی بات سُناتا ہوں۔   اے لوگو‘ آؤ اور سنو اللہ تعالی کیا فرماتا ہے، کوئی بھی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ البتہ فرشتوں کی ایک ٹولی اُدھر آ نکلتی ہے۔  فرشتے کہتے ہیں 
ہاں سناؤ اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں؟  
ناصح کہتا ہے 
میں بہت دیر سے پیاسا ہوں۔  پہلے مجھے پانی پلاؤ۔  پھر بتاؤں گا اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ 
فرشتے کھولتے ہوۓ پانی کا پیالہ منہ کو لگا دیتے ہیں ہونٹ جل کر لٹک جاتے ہیں اور سیاہ ہو جاتے ہیں اور جب یہ شخص پانی پینے سے انکار کرتا ہے تو فرشتے یہی اُبلتا ہوا پانی اُس کے منہ پر اُنڈیل دیتے ہیں۔ ہنستے اور قہقے لگاتے ہوۓ بلند آواز سے کہتے ہیں مردود کہتا تھا آؤ اللہ کی بات سنو دنیا میں بھی اللہ کے نام کو بطورِ کاروبار استعمال کرتا تھا اور یہاں بھی یہی کر رہا ہے جُھلسے اور جلے ہوۓ منہ سے ایسی وحشت ناک آوازیں اور چیخیں نکل رہی ہیں کہ انسان کو سننے کی تاب نہیں۔ چلئے دور اور بہت دور بھاگ چلیں۔۔
ایک مکان بنا ہوا ہے مکان کیا ہے بس چار دیواری ہی ہے اُس مکان پر کسی ربڑ نما چیز کی جالی دار چھت پڑی ہوئی ہے اور دھوپ اور بارش سے بچاؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس مکان میں صرف عورتیں ہی عورتیں ہیں۔ چھت اِتنی نیچی ہے کہ آدمی کھڑا نہیں ہو سکتا، ماحول میں گھٹن اور اضطراب ہے۔  ایک صاحبہ ٹانگیں پھیلاۓ بیٹھی ہیں عجیب اور بڑی ہی عجیب بات یہ ہے کہ ٹانگوں کے اُوپر کا حصہ معمول کے مطابق او ر ٹانگیں کم از کم دس دس فٹ بڑی ہیں اِس ہئیتِ کدائی میں دیکھ کر ان صاحبہ سے پوچھا۔ 
یہ کیا معمہ ہے؟
 عورت مذکور نے جواب دیا
  میں دنیاِ فانی میں جب کِسی کے گھر جاتی تھی تو اُس گھر کی سُن گُھن لے کر دوسرے گھر میں جا کر بڑھا  چڑھا کر پیش کرتی تھی یہ وہی عادت ہے جس کو دنیا والے لگا ئی بجھائی سے موسوم کرتے ہیں۔
 اب یہ حال ہے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوں ٹانگوں میں انگارے بھرے ہوۓ ہیں۔
 ہاۓ! میں جل رہی ہوں اور کوئی نہیں جو مجھ پر ترس کھاۓ۔
 "چغل خور جنت میں نہیں جاۓ گا۔"(حدیث)

غیبت:
چہرہ پر خوف اور ڈر نمایاں،  یہ شخص چُھپتے چُھپاتے دبے پاؤں،  ہاتھ میں چُھری لۓ کہاں جا رہا ہے؟ 
 آہ!  ا ُس نے سامنے کھڑے ہوۓ آدمی کی پشت میں چُھری گھونپ دی اور بہتے ہوۓ خون کو کُتے کی طرح زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔  تازہ تازہ اور گاڑھا خون پیتے ہی قے آ گیٔ۔  خون کی قے۔
 جسم کے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ کر کھایا تو چہرہ پر حزن و ملال آ گیا۔
نحیف و نزار زندگی سے بیزار،  کراہتے ہوۓ اُس مردار خور آدمی نے کہا
 کاش عالم فانی میں یہ بات میری سمجھ  میں آ جاتی  کہ غیبت کا یہ انجام ہوتا ہے۔
"جو شخص دنیا میں غیبت کرے گا وہ مُردار کھاۓگا اور ناک بھوں چڑھا کر غُل مچاۓگا۔"(حدیث)

پیٹ میں انگارے:
شکل و صورت سے اِنسان، ڈیل ڈول کے اعتبار سے دیو قد تقریباً بیس فٹ۔ جسم بے اِنتہا چوڑا، قد کی طوالت اور جسم کی چوڑئی  کی وجہ سے کسی کمرہ یا گھر میں رہنا ممکن نہیں ہے۔  بس ایک کام ہے کہ اِضطرابی حالت میں یہ صاحب مکانوں کی چھتوں پر اِدھر سے اُدھر  اور اُدھر سے اِدھرگھوم رہے ہیں، بیٹھ یہ نہیں سکتے، لیٹ بھی نہیں سکتے۔  ایک جگہ قیام کرنا بھی اِن کے بس کی بات نہیں،  اضطراری کیفیت میں اِس چھت سے اُس چھت پر اور اُس چھت سے اِس چھت پر چھلانگیں لگا رہے ہیں پوچھنے پر جواب دیا
  میں نے دنیا کی چند روزہ زندگی میں یتیموں کا حق غضب کر کے بلڈنگیں بنا ئی تھیں یہ وہی بلڈنگیں اور عمارتیں ہیں آج جِن کے دروازے میرے اُوپر بند ہیں ۔ لذیذ اور مُرغن کھانوں نے میرے جسم میں ہوا اور آ گ بھر دی ہے۔ ہوا  نے میرے جسم کو اتنا بڑا، ا ِتنا بڑا کر دیا ہے کہ میرے لئے گھر میں رہنے کا تصور بھی عذاب بن گیا ہے۔ آہ۔  آہ۔  یہ آگ مجھے جلا رہی ہے، میں جل رہا ہوں ،بھاگنا چاہتا ہوں مگر فرار کی ساری راہیں مسدود ہو گئ ہیں ۔
 " جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں انگارے بھرتے ہیں۔"  (قرآن)

بادشاہ اور ملکہ:
اچھا!  آپ  مغل خاندان کی عظیم ملکہ نور جہاں ہیں، آپ کو کیا تکلیف ہے۔ چہرے پر پژمردگی، جھنجھلاہٹ،  بے قراری اور غیض و غضب کیوں ہیں؟
  میں نہیں جانتی کہ آپ کون صاحب ہیں۔  مرنے کے بعد سے آج تک کسی نے میری خبر نہیں لی ۔  میں اپنی کنیزوں کو آواز دیتی ہوں تو وہ میرے اوپر ہنستی ہیں، دو گھڑی کے لۓ بھی کوئی  میرا ہمدم نہیں،تنہائی اور مسلسل نظر انداز کر دینے والے عوامل نے میری اس زندگی کو زہریلا کر دیا ہے۔  میں آخر ملکہ ہوں ،لوگ میرے اوپر ہنستے کیوں ہیں؟  میرا حکم کیوں نہیں مانتے؟ مجھ سے دور کیوں بھاگتے ہیں؟
برمزار ماغریباں نے چراغ نے گلے
نے پر پروانہ سوزونے صدائے بلبلے

دوزخ:
چلتے چلتے اِن صاحبہ سے بھی مِلتے چلیں
 بہن!  یہ آپ اوپر بار بار کیوں دیکھتی ہیں۔ 
 میں کیا دیکھتی ہوں؟  میں جس عالم میں ہوں یہاں سب لوگ ایسے ہیں،  جِن پر جنت کے دروازے بند ہیں۔ اِس عالم سے اوپر وہ لوگ ہیں جو جنت کے نظارے کرتے ہیں۔  میں اِس غم میں گُھل رہی ہوں  کہ میں جنت کا نظارہ کرنےوالوں میں کیوں نہیں ہوں۔  جب بھی یہ خیال میرے ذہن مین اُبھرتا ہے مجھے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ میں نے اپنے خاوند کے ہمدردانہ سلوک کی ہمیشہ نا شکری کی ہے۔
فرمایا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  " میں نے مردوں کی نسبت ، عورتوں کو دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے ۔ ایسی عورتیں اپنے خاوند کی نا شکری کرتی ہیں۔ خاوند کِتنا ہی اچھا سلوک کرے وہ یہی کہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں کیا گیا۔"

09 مئی 1977

سانس لیجئے لکنت سے نجات مل جائے گی

0 comments
جب میں چھوٹی تھی تو میرے ایک ماموں اور ایک خالہ ہکلا کر بولتے تھے۔ میں بچپن میں ان کی نقل اتارتی تھی۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہےاپنی زبان میں لکنت پائی ہے۔ حالانکہ میری امی کہتی ہیں کہ میں بچپن میں بہت صاف بولا کرتی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب میں بولتی ہوں تو کبھی کبھی تو بہت روانی سے بولتی ہوں اور کبھی ایک لفظ بولنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ میں بہت دھیمے دھیمے ٹھہر ٹھہر کر بولتی ہوں۔ کسی نے مجھے بتایا کہ کھجور کی گٹھلی یا املی کا بیج منہ میں رکھ کر بولو۔ لیکن مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کلاس میں سبق یاد ہو تب بھی نہیں سنا پاتی جس کی وجہ سے ڈانٹ پڑتی ہے اور شرمندگی علیحدہ اٹھانی پڑتی ہے۔ جب غصہ آتا ہے تو ایک لفظ بولنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ امید ہے آپ میری پریشانی کو سمجھتے ہوئے اس کو دور کرکے شکریہ کا موقع دیں گے۔
جواب: سورج نکلنے سے پہلے شمال رخ بیٹھ کر ناک سے سانس لیجئے اور منہ سے نکال دیجئے۔ سانس نکالتے وقت منہ گولائی میں کھلنا چاہئے جس طرح سیٹی بجاتے وقت ہوجاتا ہے۔ جب سانس باہر نکالیں تو زبان کی نوک دانتوں کے قریب کر لیجئے تاکہ زبان میں تھوڑا سا خم آجائے۔ دو مہینے روزانہ بلاناغہ اس عمل کو برقرار رکھئے۔

30 دسمبر 1972

چار طاقتوں کی کمی یا زیادتی سے جسم انسانی میں پیدا ہونے والے امراض

1 comments
چار طاقتوں کی کمی یا زیادتی سے جسم انسانی میں پیدا ہونے والے امراض:نوع انسانی کی ساخت کے پیش نظر یہ جاننا ضروری ہے کہ فی الواقع انسان کیا ہے؟ عام طور سے گوشت پوست سے مرکب جسم اور ہڈیوں کی پنجر پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو انسان کا نام دیا جاتا ہے لیکن ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ یہ ہے کہ گوشت کا جسم انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے ۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان پر جب وہ کیفیت وارد ہوجاتی ہے جس کو موت کا نام دیا جاتا ہے تو جسم کے اندر کوئی تبدیلی رو نما ہونے کے باوجود جسم ہر قسم کی حرکات و سکنات سے محروم ہوجاتا ہے ، مرنے کے بعد جسم کو زدو کوب کیجئے، ایک ایک عضو الگ الگ کر دیجئے، الٹئے، پلٹئے، گھسیٹئے، جسم کی طرف سے کوئی مدافعت نہیں ہوتی، بات واضح اور صاف ہے کہ جس چیز پر جسم کی حرکات و سکنات کا دارومدار تھا، اس نے جسم سے اپنا رشتہ منقطع کرلیا ہے۔
 اب ہم یوں کہیں گے کہ در اصل انسان وہ ہے جو اس گوشت و پوست کے جسم کو حرکت دیتا ہے ، عرف عام میں اس کو روح کہا جاتا ہے۔ اب یہ تلاش کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ روح کیا ہے؟ روح کے بارے میں قران پاک کا ارشاد ہے " روح امررب ہے" ، اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشادہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھاہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ یہ دیکھتا ، سنتا، سونگھتا اور محسوس کرتا انسان بن گیا ۔ روح امررب ہے۔ اور امر رب یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتاہے ہوجا، اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ انسان اور امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو تخلیق کرنے کا ارادہ کرتا ہے حرکت میں آکر اس چیز کو تخلیق کر دیتا ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق کے فارمولے (EQUATIONS) بنائے ہیں اور ہر فارمولامعین مقدار کی تحت سرگرم عمل ہے۔ ۳۰ ویں پارے میں ارشادباری تعالیٰ ہے ۔ ہم نے ہر چیز کو معین مقدار وں سے تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے لئے ارشاد فرماتے ہیں: میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں (احسن الخالقین) ۔ یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی تخلیقی اوصاف عطا کئے ہیں۔
 تخلیق دوام کی ہوتی ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی تخلیق ، دوسری اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات سے انسان کی تخلیق۔ 
 الجھنیں، پریشانی ، اضطراب، ذہنی کشاکش، اعصابی کشمکش احساس محرومی اور نت نئی بے شمار بیماریاں انسانی تخلیق کے زمرہ میں آتی ہیں۔
 ہم یہ بتا چکے ہیں کہ اصل انسان روح ہے۔ ظاہر ہے ، روح اضطراب ، کشاکش، احساس محرومی اور بیماریوں سے ماوریٰ ہے۔ روح اپنے اور جسم کے درمیان ایک میڈیم(MEDIUM) بناتی ہے اس میڈیم کو ہم جسم انسانی اور روح کے درمیان ایک فعال نظر نہ آنے والا انسان کہ سکتے ہیں ۔ یہ نظر نہ آنے والا انسان بھی با اختیار ہے ۔ اس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ روح کی فراہم کردہ اطلاعات کو اپنی مرضی سے معافی پہنا سکے۔  
جس طرح روح میں معین فارمولے (EQUATIONS) کام کرتے ہیں، اسی طرح روح اور جسم کے درمیان نظر نہ آنے والا جسم بھی معین فارمولوں کے تحت حرکت اور عمل کرتا ہے اس میں اربوں کھربوں فارمولے کام کرتے ہیں جن کو ہم چار عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ 
  1.  واٹر انرجیWATER ENERGY 
  2. الیکٹرک انرجیELECTRIC ENERGY 
  3. ہیٹ انرجیHEAT ENERGY 
  4. ونڈ انرجی WIND ENERGY
 ہم اپنے قارئین کو یہ بتلا چکے ہیں کہ انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ دماغ نمبر ایک براہ راست اطلاعات قبول کرتا ہے اور دماغ نمبر ۲ ان اطلاعات کو اپنے مفید مطلب یا غیر مفید مطلب معافی پہنانے میں قادر ہے۔ جب دماغ نمبر ۲ مفید مطلب ، غیر صالح اور تخریبی معافی پہنانے کا عادی ہوجاتا ہے تو معین مقداروں میں سقم واقع ہونے لگتا ہے۔ اور مذکورہ بالا انرجیسENERGIES اپنے صحیح خدوخال کھو بیٹھتی ہیں۔ 
واٹر انرجی کی تراش خراش یا اضافہ سے استسقاء، پلوریسی، فیل پا، بہرہ اور گونگا پن، موتیا بند اور کالا موتیا جیسے امراض وجود میں آجاتے ہیں۔
 الیکٹرک انرجی میں اگر سقم واقع ہوجائے اور معین مقدار میں ٹوٹ پھوٹ جائیں یا ان میں اضافہ ہوجائے تو نتیجہ میں آتشک، سوزاک، جذام، کوڑھ، برص، سرطان اور کینسر جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ 
ونڈ انرجی کی شکست وریخت اور معین مقداروں کے فقدان سے ، بواسیر، نواسیر، بھگندر اورفسچولا وغیرہ کے امراض تخلیق پاتے ہیں۔
 ہیٹ انرجی کی معین مقدار میں متاثر ہونے کے بعد لقوہ ، فالج ، ہائی بلڈ پریشر ، دمہ ، خلل دماغ ، مرگی، مالیخولیا اور نروس نیس NERVOUSNESS وغیرہ کا تانا بانا انسان کے اوپر مسلط ہوجاتا ہے۔

01 جون 1972

الیکٹرک شاکس اور ریڑھ کی ہڈی کا پانی

0 comments
۳ سال قبل دونوں ہاتھ کی کہنیوں کے جوڑ کے اوپر گوشت پھڑکنا شروع ہوا۔ تین ماہ بعد جسم کے دوسرے حصوں کا گوشت بھی پھڑکنے لگا۔ پھر پیروں کے تلوؤں کا گوشت مستقل پھڑکنے لگا۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے معائنہ کیا اور اسپتال میں داخل کرلیا۔ الیکٹرک شاکس لگائے گئے اور ریڑھ کی ہڈی سے پانی بھی نکالا گیا۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب صورت یہ ہے کہ ہاتھ پیروں کا گوشت، دونوں کندھوں کا گوشت، دونوں بغلوں کا گوشت اور کولہوں کا گوشت باالترتیب وقفہ وقفہ سے پھڑکتا رہتا ہے۔ لکھتے وقت اور زیادہ دیر تک ایک جگہ دیکھنے سے جسم کا پورا گوشت پھڑکنا شروع ہوجاتا ہے۔ میں ایک ادارہ میں 150/- روپے  ماہانہ پر ملازمت کرتا ہوں۔ اس تنخواہ پر گھر کا کسی نہ کسی طرح گزارہ ہوتا ہے۔
جواب: اَلرَّضَاعَتْ عَمَا نَوِیْلْ زعفران کی روشنائی سے پلیٹوں پر لکھ کر صبح نہار منہ اور رات سوتے وقت پانی سے دھوکر تین ماہ تک پئیں۔ فائدہ انشاءاللہ اکیس روز میں ہوجائیگا لیکن نوے دن تک علاج جاری رکھیں۔ کھانوں میں بنولہ کا تیل دونوں وقت روٹی پر چپڑ کر کھائیں۔

گرم غذاؤں سے پسینہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے

0 comments
میرے پسینے میں اس قدر بو آتی ہے کہ ساتھ بیٹھنے والے لوگ ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔ بعض اوقات میں خود بھی اس تعفن سے بھری ہوئی بُو سے پریشان ہوجاتا ہوں۔
جواب: گرم مصالحہ، تیز نمک مرچ والی غذاؤں سے چند ماہ پرہیز کریں۔ گوشت، مچھلی، انڈہ بھی نہ کھائیں۔ غذا میں زیادہ تر سبزیاں اور ٹھنڈی چیزیں استعمال کریں۔

جسم کے ہر حصے میں درد ہوتا ہے

0 comments
شہناز۔ کراچی: دوسال سے جسم کے ہرحصے میں درد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سوئیاں چبھورہا ہے۔ڈاکٹر السر بھی بتاتے ہیں۔
جواب: میرا خیال ہے کہ آپ کے پیٹ میں کیڑے ہیں۔ ان کا علاج کرالیجئے۔ یہ تکلیف انشاءاللہ ختم ہوجائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اخبار میں شائع شدہ ہینگ اور گھی کے نسخہ پر عمل کریں۔ گھی تیار کرکے پیٹ کے نیچے پیڑو پر مالش کی جاتی ہے۔ ثقیل، بادی، کھٹی چیزوں نیز زیادہ نمک مرچ سے پرہیز ضروری ہے۔

الیکٹرک شاکس اور ریڑھ کی ہڈی کا پانی

0 comments
۳ سال قبل دونوں ہاتھ کی کہنیوں کے جوڑ کے اوپر گوشت پھڑکنا شروع ہوا۔ تین ماہ بعد جسم کے دوسرے حصوں کا گوشت بھی پھڑکنے لگا۔ پھر پیروں کے تلوؤں کا گوشت مستقل پھڑکنے لگا۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے معائنہ کیا اور اسپتال میں داخل کرلیا۔ الیکٹرک شاکس لگائے گئے اور ریڑھ کی ہڈی سے پانی بھی نکالا گیا۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب صورت یہ ہے کہ ہاتھ پیروں کا گوشت، دونوں کندھوں کا گوشت، دونوں بغلوں کا گوشت اور کولہوں کا گوشت بالترتیب وقفہ وقفہ سے پھڑکتا رہتا ہے۔ لکھتے وقت اور زیادہ دیر تک ایک جگہ دیکھنے سے جسم کا پورا گوشت پھڑکنا شروع ہوجاتا ہے۔ میں ایک ادارہ میں 150/- روپے  ماہانہ پر ملازمت کرتا ہوں۔ اس تنخواہ پر گھر کا کسی نہ کسی طرح گزارہ ہوتا ہے۔
جواب:  اَلرَّضَاعَتْ عَمَا نَوِیْلْ 
زعفران کی روشنائی سے پلیٹوں پر لکھ کر صبح نہار منہ اور رات سوتے وقت پانی سے دھوکر تین ماہ تک پئیں۔ فائدہ انشاءاللہ اکیس روز میں ہوجائیگا لیکن نوے دن تک علاج جاری رکھیں۔ کھانوں میں بنولہ کا تیل دونوں وقت روٹی پر چپڑ کر کھائیں۔

گرم غذاؤں سے پسینہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے

0 comments
میرے پسینے میں اس قدر بو آتی ہے کہ ساتھ بیٹھنے والے لوگ ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔ بعض اوقات میں خود بھی اس تعفن سے بھری ہوئی بُو سے پریشان ہوجاتا ہوں۔
جواب: گرم مصالحہ، تیز نمک مرچ والی غذاؤں سے چند ماہ پرہیز کریں۔ گوشت، مچھلی، انڈہ بھی نہ کھائیں۔ غذا میں زیادہ تر سبز یاں اور ٹھنڈی چیزیں استعمال کریں۔

01 دسمبر 1971

19 سال کی عمر میں آدھا سر سفید ہو گیا

0 comments
شازیہ حلیم کورنگی، شہناز کراچی، عبدالرحمن بلوچ کراچی، صابری ٹھٹھہ، محمد خالد کراچی، سکندر خاں کوہاٹ، ش ۔ب۔حسن لانڈھی۔
میرے بال پہلے لمبے تھے، لیکن اب بہت کم ہوگئے ہیں۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو مگر میرے لئے یہ دن رات کے روحانی کرب کا موجب بن گیا ہے۔ اللہ تعالی نے مجھے خوبصورتی کی دولت سے نوازا اور اس کے ساتھ ہی خوبصورت اور گھنے بال عطا فرماۓ۔ اتنے گھنے بال کہ جو دو چوٹیوں میں بھی نہیں سماتے تھے اب ایک چٹیا بھی نہیں بنتی۔
میرے بال ریشم کی طرح ملائم ہیں معلوم ہوتا ہے کہ سر پر بال نہیں ریشم ہے کنگھی کرتا ہوں تو بال اس طرح ہو جاتے ہیں کہ جیسے سر پر بال ہی نہیں ہیں۔
انیس سال کی عمر میں سر کے بال پچاس فیصد سفید ہوگئے ہیں۔ کئی اشتہاری تیل استعمال کر چکا ہوں لیکن سفید بالوں میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوئی۔ لمبے اور گھنے بالوں کا جنون کی حد تک شوق ہے آج کل ایک نئی مصیبت سے دوچار ہوں کہ بال دو شاخہ ہو رہے ہیں کسی رسالہ میں پڑھا تھا کہ بال کے سرے کاٹ دینے سے "دوشاخہ"ختم ہو جاتا ہے۔ مگر مجھے تو ذرا سا بھی فائدہ نہیں ہوا۔
میرے سارے جسم میں بہت زیادہ گھنے اور سخت بال ہیں جن میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
جواب: لمبے، گھنے ، مضبوط اور خوبصورت بالوں کے لئے خانہ ساز تیل تیار کرا لیجیۓ اور رات کو سوتے وقت سر میں مالش کیجۓ۔ خالص سرسوں یا تلوں کے ایک سیر تیل میں ایک چھٹانک گلو (چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے)کو اتنا پکائیے کہ وہ جل کر سرخ ہو جاۓ۔ تیل ٹھنڈا ہونے پر کپڑے سے چھان لیں اور شیشی میں بھر کر رکھ لیں۔ تیل کی مالش کے ساتھ ساتھ روزانہ رات کو سوتے وقت ایک پاو بکری کا دودھ پیئں۔ دھوپ کے وقت بکری کا دودھ سر میں جذب کر کے نیم گرم پانی سے سر دھو ڈالیں۔ روزانہ سر دھونا ضروری نہیں ہے۔ جب بھی سر دھوئیں۔ وہ گھنٹہ پہلے سر میں بکری کا دودھ اچھی طرح جذب کر لیا جاۓ۔
سفید بال کالے کرنے کے لئے، رائی، میتھی کے بیج، السی ہم وزن لے کر سفوف بنالیں۔ شام کا کھانا کھانے کے آدھا گھنٹہ بعد ایک ماشہ سفوف تازہ پانی کے ساتھ کھائیں۔ اس نسخہ کا پورا اثر چھ ماہ بعد ظاہر ہوتا ہے کئی حضرات استعمال کر رہے ہیں۔ نتائج اللہ کے فضل و کرم سے امید افزا ہیں عام صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوۓ ہیں بال بھی کالے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

مشین کے ذریعہ دماغ کا معائنہ

0 comments
زلیخا سلیمان  کراچی۔میری بیٹی روبینہ ایک معذور بچی ہے ممکن ہے آپ کے علاج سے تندرست ہوجاۓ۔ میں اس کے مکمل حالات آپ کو لکھتی ہوں۔ آپ کو خدا رسول کا واسطہ آپ میری بچی کے لئے علاج تجویز کر دیں۔ ہم لوگ کراچی اور بمبئی کے تمام بڑے بڑے انگریزی، یونانی اور ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کا علاج کراچکے ہیں لیکن حالت سدھرنے کی بجاۓ روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے۔ اب صرف خدا کا آسرا رہ گیا ہے۔
بچی آپریشن کے ذریعہ سے پیدا ہوئی۔ چونکہ بے حد کمزور تھی اس لئے آکسیجن میں رکھا گیا۔ لیکن رفتہ رفتہ تندرست ہو گئی بچی کی پیدائش سے قبل میں ہائی بلڈ پریشر کی مریض تھی اور دو مرتبہ تشنجی  دورے بھی پڑے تھے۔ میں اب بھی اس مرض میں مبتلا ہوں۔
بچی کے چار ماہ میں دانت نکلنا شروع ہوۓ چھ ماہ کی عمر میں بیٹھنے لگی اور گیارہ ماہ کی عمر میں چلنے پھرنے لگی اور چند الفاظ بھی ادا کرنے لگی۔ ڈیڑھ سال کی ہوئی تو خسرہ نکلی۔ کچھ عرصہ بعد تیز بخار آیا اور اتر گیا لیکن زکام کی حالت باقی رہی۔ چار سال کی عمر میں ڈاکٹر نے آپریشن کر کے ٹانسلز  نکال دئیے۔ لیکن اس عرصہ میں یہ بات سامنے آئی کہ بچی پوری طرح بولنے سے معذور ہے اور چلنے میں اس کی ٹانگیں کانپتی ہیں اور روز بروز لاغرو کمزور ہوتی جا رہی ہے 1948ءمیں اس کو بمبئی لے گئی اور وہاں بچوں کے ماہر ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ اور اس کے علاوہ نامور ڈاکٹروں سے بھی علاج کروایا۔ لیکن بے سود ۔ ہر معالج کی تشخیص جدا تھی۔ کسی نے ذہنی طور پر پسماندہ بتایا تو کسی نے جسمانی کمزوری اور کسی نے رگوں کے نظام میں تعطل بتایا۔ ایک ذہنی ڈاکٹر نے باقاعدہ مشین کے ذریعہ دماغ کے نظام کا مکمل معائنہ کر کے بتایا کہ دماغ کی رگوں کا فعل ناقص ہے اور یہ مرض بڑھتے بڑھتے تمام دماغ کو متا ثر کر دیگا اور بچی پلنگ سے لگ جاۓ گی یہ بات حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اور 1969ء میں یہ حالت ہو گئی کہ بچی صرف کولہوں کے بل گھسٹتی تھی۔ اور پھر لڑھک جاتی تھی اور حواس خمسہ تو گویا بالکل ہی ختم ہوگئے تھے۔ نہ بھوک کا اظہار کر سکتی تھی نہ پیاس کا، پیشاب ، پخانے کا بھی ہوش نہیں تھا۔ یہاں تک کہ شکلیں پہچاننا بھی بھول گئی نوبت یہاں تک پہنچی کہ بچی کو کرسی پر بٹھا کر باندھ دیتے تھے۔ لیکن گردن پھر بھی نہیں ٹھہرتی تھی اور کرسی سمیت لڑھک جاتی تھی ۔ رونا شروع کرتی تو دن رات روتی اور بلا مبالغہ ایک ہفتہ تک روتی ہی رہتی ۔ تعویذ اور گنڈے بھی کراۓ اور اس کی مجبوری کو دیکھ کر اس کی موت کی دعائیں بھی مانگیں۔ اس بچی کے منہ سے عرصہ تک بد بو دار رال بھی بہتی رہتی۔ کبھی کبھی دورہ پڑتا ہے جس میں اس کا جسم ہلنا شروع ہوجاتا ہے اور پھر وہ ایک طرف گر جاتی ہے ۔ اس طرح گر نے سے بے شمار چوٹیں بھی آئیں لیکن اس کو کسی قسم کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ بچی ایک زندہ لاش ہے ۔ اس کے پیر سوکھ کر ڈنڈوں کی مانند ہوگئے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جسمانی ترقی میں کسی قسم کا خلل نہیں پڑا ۔
یعنی دودھ کے دانت ٹوٹ کر نئے آۓ ،بال اور ناخن بھی بڑھتے ہیں، قد بھی عمر کے مطابق ہے البتہ  منہ نہیں کھلتا اور پیر کے پنجے اندر کی طرف مڑ گئے ہیں اور ہاتھ کی ہڈیوں میں کجی آ گئی ہے۔ بطور غذا کے شوربہ میں روٹی چور کر زبردستی کھلاتی ہوں لیکن بچی کو حلق سے اتارنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ اب یا تو اس کی بینائی کمزور ہو رہی ہے یا زائل ہو رہی ہے۔
جواب: آدھ پاؤ عمدہ قسم کی سیپ خرید کر گر م پانی سے خوب صاف کر لیں۔ ہاون دستہ میں موٹا موٹا کچل کر گاڑھے مضبوط اور صاف کپڑے میں باندھ کر پوٹلی بنا لیں۔ مٹی کی ہانڈی میں اتنا پانی لیں بچی ایک دن میں استعمال کرتی ہو پوٹلی کو اس میں ڈال کر پانی کو ایک جوش دیں۔ اس علاج پر تین ماہ عمل کریں اور پھر حالات سے مطلع کریں۔ ہانڈی کا پانی روزانہ بدلیں۔ ایک پوٹلی صرف پندرہ دن کام دے گی۔ اس کے بعد سیپ اور کپڑا بدلنا ضروری ہے۔