16 مئی 1977

مرنے کے بعد کیا ہوگا؟

0 comments
یہ ایک ایسی بات ھے کہ یہاں آکر جو آباد ہو گیاپھر کبھی چشمِ پُر نم نے کسی کو واپس آتے نہیں دیکھا۔عالمِ رنگ و بو کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہواکہ یہاں آکر بسنے والے کسی شخص نے نقل مکانی کر کے یہ بتایا ہو کہ اُس پر کیا گزری ہے اور وہ کِس حال میں زندگی گُزارتا رہا ہے۔
آرامِ استراحت اور غم و آلام کے اِس ماحول سے ذرا دیر کے لیے الگ ہو کر دیکھیٔے۔

قبرستان:
یہاں نئی، پُرانی، کتبوں اور ٹا ئلوں سے مزیّن درخت کے پتوں میں سا یہ فگن،سورج کی تپش اور تمازت میں جھلسی ہوئی، شکستہ اور کھلی ہو   ئی  قبریں ہیں۔ ماحول میں اداسی گھلی ہوئی ہے۔  فِضا خاموش اور ساکت ہے ہر طرف سناٹا ہے،ہُو کا ایک عالم ہےاِس عالمِ آب و گل میں امیر، غریب، بادشاہ، غلام، ظالم، رحمدل، بوڑھے، جوان اور بچے سب موجود ہیں۔ مٹی کے اِن ڈھیروں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا وجود دنیا کے لۓ رحمت تھا اور ایسے بھی جِن کے نام سے دنیا لرزہ براندام ہو جاتی تھی ایسے لوگ بھی مٹی کی آغوش میں سوۓ ہوۓ ہیں جِن کی زندگی کا مقصد اپنی اور صرف اپنی ذات ہوتا ہے دولت کے پُجاری اور ایثار پیشہ سب ہی آباد ہیں۔
 دیکھۓ!  
قبرستان کے ایک ویران گوشے میں نقش و نگار سے مزین یہ کتنی خوبصورت قبر ہے۔
 آئیے!   
اِس قبر کے اندر دیکھیں کیا ہو رہا ہے؟ 
دوزانو بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیجیۓ۔منہ بند کر کےناک کے دونوں سوراخوں (نتھنوں) سے گہرائی میں سانس لے کر سینہ میں روک لیجیۓ جب تک آسانی کے ساتھ برداشت کر سکیں سانس کو سینے میں جمع رکھیۓ پھر منہ کھول کر آہستہ آہستہ اور بہت آہستہ سانس باہر نکال دیں۔چند بار کے اِس عمل سے دماغ کی وہ صلاحیت جو ٹا ئم اسپییس( Time Space)  کی حدوں میں قید نہیں ہے متحرک ہو جاتی ہے۔ قانون یہ ہے کہ جب ہم اپنے اندر سانس لیتے ہیں تو ہم صعودی کیفیت میں سفر کرتے ہیں اور جب سانس باہر نکالتے ہیں تو نزولی کیفیت  ( آب وگِل کے تاثرات)  ہمارے اُوپر مسلط ہو جاتی ہیں۔
  بس ٹھیک ہے۔ غیب بینی کی صلاحیت حرکت میں آگئی ہے۔ یکسوئی اور توجہ کے ساتھ روح کی آنکھ اندھیرا اجالے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ 
منظر کِس قدر حسین ہو گیا ہے۔   ہر چہارسو مرکری روشنیاں چودھویں کے چاند کو شرما رہی ہیں۔
  اُس طرف دیکھۓ!  یہ دروازہ ہے۔
چلئیے اِس دروازہ سے اندر داخل ہوتے ہیں یہاں تو پورا شہر آباد ہے۔
 اِس عظیم اور لاکھوں سال پُرانے شہر میں فلک بوس عمارتیں، چھوٹے بڑے مکانات، پھونس سے بنی ہوئی جھونپڑیاں،  د ُکانیں، بازار، میدان، ندی، نالے بھی ہیں۔ یہ شہر پتھر کے زمانے کے لوگوں کا مسکن ہے اور ترقی یافتہ دور کے لوگ بھی اِس میں مکین ہیں۔

چور بازاری:
بازار میں ایک صاحب دکان لگاۓ بیٹھے ہیں۔ دکان طرح طرح کے ڈبوں اور شیشے کے جار سے سجی ہوئی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ اِن ڈبوں اور شیشے کے جاروں میں سامان کچھ نہیں ہے۔
کتنا اُداس اور پریشان ہے یہ شخص؟
 پوچھا تمھارا کیا حال ہے؟
 کہا!  میں اِس بات سے غمگین ہوں کہ مجھے یہاں بیٹھے ہوۓ پانچ سو سال گزر گۓ ہیں اِس طویل عرصہ میں میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں آیا۔
  میں دنیا میں ایک سرمایہ دار تھا منافع خوری اور چور بازاری میرا کاروبار تھا۔

تین ہزار سال:
برابر کی دکان میں ایک اور آدمی بھی بیٹھا ہوا ہے بوڑھا آدمی ہے۔ بال اُلجھے ہوۓ اور بالکل خشک۔ چہرہ پر وحشت ہے، گھبراہٹ کا عالم ہے ۔  سامنے کاغذ ہے اور حساب کے رجسٹر پڑے ہیں ۔یہ ایک کشادہ اور قدرے صاف دکان ہے۔ یہ صاحب کاغذ پر رقموں کی میزان  دے رہے ہیں۔ رقموں کا جوڑ کرتے ہیں تو اعداد بلند آواز سے گنتے ہیں۔
  کہتے ہیں دو اور تین سات، سات اور دو دس۔  دس اور پانچ بیس۔  میزان کر کے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں تا کہ اِطمینان ہو جاۓ۔  اب اِس طرح میزان کرتے ہیں تین اور چار سات، سات اور تین بارہ۔  مطلب یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں میزان غلط ہو تی ہے۔  جب یہ دیکھتے ہیں کہ میزان صحیح نہیں ہے تو وحشت زدہ ہو کر بال نوچتے ہیں خود کو کوستے ہیں بڑبڑاتے ہیں اور دیوار سے سر ٹکراتے ہیں اور پھر میزان دینے میں منہمک ہو جاتے ہیں۔
بڑے میاں کی خدمت میں عرض کیا  جناب یہ  کیا کر رہے ہیں۔
 کہا میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیر پھیر کرتا تھا بد معاملگی میرا شعار تھا۔
 "سو جِس نے کی ذرہ بھر بھلا  ئی وہ دیکھ لے گا اور جِس نے کی زرہ بھر بُرائی وہ دیکھ لے گا۔"(قرآن)

اللہ کے ساتھ مَکر:
علمأسو سے تعلُق رکھنے والے اِن صاحب سے ملۓ؟  داڑھی اِتنی لمبی کہ جیسے جھڑ بیر کی جھاڑی۔  اِتنی بڑی کہ اس میں پیر چُھپے ہوۓ ہیں۔  چلتے ہیں تو داڑھی اِکٹھا کر کے اپنی کمر کے اِردگرد لپیٹ لیتے ہیں اِس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلتے وقت داڑھی کُھل جاتی ہے اور اُس میں اُلجھ کر زمین پر اوندھے منہ گِر جاتے ہیں۔  اُٹھتے ہیں تو داڑھی میں اُلجھ کر پھر  منہ کے بَل زمین  پر گِرتے ہیں۔ سوال کرنے پر بتایا۔
 دُنیا میں لوگوں کو دھوکہ دینے کے لۓ میں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اِس کے ساتھ ساتھ داڑھی رکھنا میرے لۓ بہت بڑی نیکی بھی تھی۔ میں اِس نیکی کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیکدل  لوگوں سے مطلب ہاری کر لیتا تھا۔
  "لوگ اللہ کے ساتھ مکر کرتے ہیں اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔" (قرآن)

فرِشتے:
وہ دیکھۓ، دور بستی سے باہر ایک صاحب زور زور سے آواز لگا رہے ہیں۔  اے لوگو‘ آؤ! میں تمھیں اللہ کی بات سُناتا ہوں۔   اے لوگو‘ آؤ اور سنو اللہ تعالی کیا فرماتا ہے، کوئی بھی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ البتہ فرشتوں کی ایک ٹولی اُدھر آ نکلتی ہے۔  فرشتے کہتے ہیں 
ہاں سناؤ اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں؟  
ناصح کہتا ہے 
میں بہت دیر سے پیاسا ہوں۔  پہلے مجھے پانی پلاؤ۔  پھر بتاؤں گا اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ 
فرشتے کھولتے ہوۓ پانی کا پیالہ منہ کو لگا دیتے ہیں ہونٹ جل کر لٹک جاتے ہیں اور سیاہ ہو جاتے ہیں اور جب یہ شخص پانی پینے سے انکار کرتا ہے تو فرشتے یہی اُبلتا ہوا پانی اُس کے منہ پر اُنڈیل دیتے ہیں۔ ہنستے اور قہقے لگاتے ہوۓ بلند آواز سے کہتے ہیں مردود کہتا تھا آؤ اللہ کی بات سنو دنیا میں بھی اللہ کے نام کو بطورِ کاروبار استعمال کرتا تھا اور یہاں بھی یہی کر رہا ہے جُھلسے اور جلے ہوۓ منہ سے ایسی وحشت ناک آوازیں اور چیخیں نکل رہی ہیں کہ انسان کو سننے کی تاب نہیں۔ چلئے دور اور بہت دور بھاگ چلیں۔۔
ایک مکان بنا ہوا ہے مکان کیا ہے بس چار دیواری ہی ہے اُس مکان پر کسی ربڑ نما چیز کی جالی دار چھت پڑی ہوئی ہے اور دھوپ اور بارش سے بچاؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس مکان میں صرف عورتیں ہی عورتیں ہیں۔ چھت اِتنی نیچی ہے کہ آدمی کھڑا نہیں ہو سکتا، ماحول میں گھٹن اور اضطراب ہے۔  ایک صاحبہ ٹانگیں پھیلاۓ بیٹھی ہیں عجیب اور بڑی ہی عجیب بات یہ ہے کہ ٹانگوں کے اُوپر کا حصہ معمول کے مطابق او ر ٹانگیں کم از کم دس دس فٹ بڑی ہیں اِس ہئیتِ کدائی میں دیکھ کر ان صاحبہ سے پوچھا۔ 
یہ کیا معمہ ہے؟
 عورت مذکور نے جواب دیا
  میں دنیاِ فانی میں جب کِسی کے گھر جاتی تھی تو اُس گھر کی سُن گُھن لے کر دوسرے گھر میں جا کر بڑھا  چڑھا کر پیش کرتی تھی یہ وہی عادت ہے جس کو دنیا والے لگا ئی بجھائی سے موسوم کرتے ہیں۔
 اب یہ حال ہے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوں ٹانگوں میں انگارے بھرے ہوۓ ہیں۔
 ہاۓ! میں جل رہی ہوں اور کوئی نہیں جو مجھ پر ترس کھاۓ۔
 "چغل خور جنت میں نہیں جاۓ گا۔"(حدیث)

غیبت:
چہرہ پر خوف اور ڈر نمایاں،  یہ شخص چُھپتے چُھپاتے دبے پاؤں،  ہاتھ میں چُھری لۓ کہاں جا رہا ہے؟ 
 آہ!  ا ُس نے سامنے کھڑے ہوۓ آدمی کی پشت میں چُھری گھونپ دی اور بہتے ہوۓ خون کو کُتے کی طرح زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔  تازہ تازہ اور گاڑھا خون پیتے ہی قے آ گیٔ۔  خون کی قے۔
 جسم کے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ کر کھایا تو چہرہ پر حزن و ملال آ گیا۔
نحیف و نزار زندگی سے بیزار،  کراہتے ہوۓ اُس مردار خور آدمی نے کہا
 کاش عالم فانی میں یہ بات میری سمجھ  میں آ جاتی  کہ غیبت کا یہ انجام ہوتا ہے۔
"جو شخص دنیا میں غیبت کرے گا وہ مُردار کھاۓگا اور ناک بھوں چڑھا کر غُل مچاۓگا۔"(حدیث)

پیٹ میں انگارے:
شکل و صورت سے اِنسان، ڈیل ڈول کے اعتبار سے دیو قد تقریباً بیس فٹ۔ جسم بے اِنتہا چوڑا، قد کی طوالت اور جسم کی چوڑئی  کی وجہ سے کسی کمرہ یا گھر میں رہنا ممکن نہیں ہے۔  بس ایک کام ہے کہ اِضطرابی حالت میں یہ صاحب مکانوں کی چھتوں پر اِدھر سے اُدھر  اور اُدھر سے اِدھرگھوم رہے ہیں، بیٹھ یہ نہیں سکتے، لیٹ بھی نہیں سکتے۔  ایک جگہ قیام کرنا بھی اِن کے بس کی بات نہیں،  اضطراری کیفیت میں اِس چھت سے اُس چھت پر اور اُس چھت سے اِس چھت پر چھلانگیں لگا رہے ہیں پوچھنے پر جواب دیا
  میں نے دنیا کی چند روزہ زندگی میں یتیموں کا حق غضب کر کے بلڈنگیں بنا ئی تھیں یہ وہی بلڈنگیں اور عمارتیں ہیں آج جِن کے دروازے میرے اُوپر بند ہیں ۔ لذیذ اور مُرغن کھانوں نے میرے جسم میں ہوا اور آ گ بھر دی ہے۔ ہوا  نے میرے جسم کو اتنا بڑا، ا ِتنا بڑا کر دیا ہے کہ میرے لئے گھر میں رہنے کا تصور بھی عذاب بن گیا ہے۔ آہ۔  آہ۔  یہ آگ مجھے جلا رہی ہے، میں جل رہا ہوں ،بھاگنا چاہتا ہوں مگر فرار کی ساری راہیں مسدود ہو گئ ہیں ۔
 " جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں انگارے بھرتے ہیں۔"  (قرآن)

بادشاہ اور ملکہ:
اچھا!  آپ  مغل خاندان کی عظیم ملکہ نور جہاں ہیں، آپ کو کیا تکلیف ہے۔ چہرے پر پژمردگی، جھنجھلاہٹ،  بے قراری اور غیض و غضب کیوں ہیں؟
  میں نہیں جانتی کہ آپ کون صاحب ہیں۔  مرنے کے بعد سے آج تک کسی نے میری خبر نہیں لی ۔  میں اپنی کنیزوں کو آواز دیتی ہوں تو وہ میرے اوپر ہنستی ہیں، دو گھڑی کے لۓ بھی کوئی  میرا ہمدم نہیں،تنہائی اور مسلسل نظر انداز کر دینے والے عوامل نے میری اس زندگی کو زہریلا کر دیا ہے۔  میں آخر ملکہ ہوں ،لوگ میرے اوپر ہنستے کیوں ہیں؟  میرا حکم کیوں نہیں مانتے؟ مجھ سے دور کیوں بھاگتے ہیں؟
برمزار ماغریباں نے چراغ نے گلے
نے پر پروانہ سوزونے صدائے بلبلے

دوزخ:
چلتے چلتے اِن صاحبہ سے بھی مِلتے چلیں
 بہن!  یہ آپ اوپر بار بار کیوں دیکھتی ہیں۔ 
 میں کیا دیکھتی ہوں؟  میں جس عالم میں ہوں یہاں سب لوگ ایسے ہیں،  جِن پر جنت کے دروازے بند ہیں۔ اِس عالم سے اوپر وہ لوگ ہیں جو جنت کے نظارے کرتے ہیں۔  میں اِس غم میں گُھل رہی ہوں  کہ میں جنت کا نظارہ کرنےوالوں میں کیوں نہیں ہوں۔  جب بھی یہ خیال میرے ذہن مین اُبھرتا ہے مجھے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ میں نے اپنے خاوند کے ہمدردانہ سلوک کی ہمیشہ نا شکری کی ہے۔
فرمایا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  " میں نے مردوں کی نسبت ، عورتوں کو دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے ۔ ایسی عورتیں اپنے خاوند کی نا شکری کرتی ہیں۔ خاوند کِتنا ہی اچھا سلوک کرے وہ یہی کہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں کیا گیا۔"

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔